جنگ بدر کی روانگی کے موقع پر رسول اللہ ا لشکر ترتیب دے رہے تھے اور نوجوان عمیررضی اللہ عنہ بن ابی وقاص ادھر ادھر چھپتے پھر رہے تھے۔ ان کے بڑے بھائی سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے اس کی وجہ پوچھی تو چھوٹے بھائی نے عرض کیا کہ رسول اللہ ا نے میری عمر کے لڑکوں کو لشکر سے نکال دیا ہے۔ ڈرتا ہوں کہ اگر دیکھ لیا تو مجھ کو بھی منع فرما دیں گے۔ مجھے یہ گوارا نہیں کہ رسول اللہ ا تو دشمن کے مقابلے پر میدان میں جائیں اور میں گھر میں آرام کرتا رہوں۔ میری آرزو ہے کہ میں حضور ا کے دوش بدوش کفار سے لڑوں اور ان کی حفاظت کرتا ہوا شہادت کی دولت سے مالا مال ہو جاﺅں۔ پھر حضرت عمیررضی اللہ عنہ نے حضور ا کے سامنے پہنچ کر ایڑیاں اوپر اٹھالیں تا کہ قد لمبا نظر آئے، لیکن حضوراکرم ا نے ان کی کم عمری کی وجہ سے کہا کہ عمیررضی اللہ عنہ تم واپس جاﺅ، اتنا سننا تھا کہ حضرت عمیررضی اللہ عنہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور عرض کیا” یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا مجھے آپ پر جان قربان کرنے کا موقع نہیں ملے گا؟ میری تمنا ہے کہ آپ کی حفاظت کرتا ہوا جام شہادت نوش کروں“ ۔
حضرت عمیررضی اللہ عنہ کے اس جوش اور شوق شہادت نے حضور ا کے دل پر گہرا اثر کیا۔ آپ ا نے فرمایا۔ ”اچھا ٹھیک ہے تم ہمارے ساتھ چلو،لاﺅ میں تمہیں تلوار باندھ دیتا ہوں“اتنا سننا تھا کہ حضرت عمیررضی اللہ عنہ خوشی سے اچھلنے لگے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصرضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔ ”اس وقت عمیر رضی اللہ عنہ کا قد اتنا چھوٹا تھا کہ جب تلوار باندھی گئی تو زمین پر لٹکنے لگی۔ میں نے تلوار کے تسمے میں گرہ لگاکر اسے اونچا کیا“ میدان کارزار میں پہنچے تو عمیر رضی اللہ عنہ نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ مشرکین کے بڑے بڑے بہادروں سے مقابلہ کرنے سے نہیں کترائے۔ ایک مرتبہ عمرو بن عبدود سامنے آیا تو عمیررضی اللہ عنہ تلوار لے کر اس کی طرف لپکے۔ لیکن کافر نے ایسا کاری ضرب لگائی کہ عمیررضی اللہ عنہ کی رسو ل اکرم ا کے قدموں میں جان دینے کی خواہش پوری ہو گئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں